Case Allama Sb

آج ہم آپ کے ساتھ ایک منفرد نوعیت کا کیس ڈسکس کریں گے۔ یہ کیس ہے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا کی ایک معروف شخصیت علامہ صاحب کا۔ آپ حافظ ِقران ہیں، خطیب ہیں، قاری بھی ہیں اور معلم کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ کا تعلق ایک مشہور علمی خانوادے سے ہےاور وسیع حلقۂ ارادت رکھتے ہیں۔ چند ماہ قبل علامہ صاحب نے واٹس ایپ پر رابطہ کیا۔ وہ فیس بک پر مختلف کیسز کا مطالعہ کر چکے تھے اور اپنے پیچیدہ مسائل کے بارے میں بات کر نا چاہتے تھے۔ علامہ صاحب کے مسائل پریشان کن تھے جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی کے معمولات خاصے ڈسٹرب تھے۔ کئی طرح کے ڈر، خوف، فوبیاز، خاص طور پر موت کا خوف حواس پر طاری رہتا تھا۔ منتشر دماغ، منفی خیالات ، شدید سر درد، پرسکون نیند کی عدم موجودگی، معدے کے مسائل ، ڈپریشن ، اینگزائٹی اور اس جیسے کئی مسائل نے انھیں گھیر رکھا تھا۔ ڈسٹ الرجی بہت زیادہ تھی۔ شدید نزلہ زکام کوئی بھی کام خوش اسلوبی سے کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنا رہتا تھا۔ اور اس سے چھٹکارا پانے کےلیے بہت ساری ایلوپیتھک ادویات زیرِ استعمال تھیں۔ صورت حال کے پیش نظر تفصیلی انٹرویو درکار تھا ۔ علامہ صاحب نے اپنی ساری تفصیلات ایک تحریر میں سمو دیں جو ذیل میں پیش خدمت ہے۔

“السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب!

اس وقت میری عمر 36 سال ہے

جب میری عمر 9 سال تھی حفظ کے لیے مجھے مدرسے میں گھر سے دور بھیج دیا گیا ۔ زمانۂ حفظ بڑی مشقت میں گزرا صبح چار بجے اٹھ کر سبق سنانا اس کا رات سے فکر سوار رہتا اور کبھی سبق یاد نہ ہو تو مار کا ڈر، خیر! تین سال اسی کیفیت میں گزرے۔

پھر درجہ عالمیت میں بھی کچھ یہی کیفیت 9 سال تک رہی۔

20 سال کی عمر میں فراغت ہوئی۔

21 سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے درس و تدریس اور امامت کے لیے قبول فرمالیا۔

اب تو کسی قسم کا کوئی خوف نہ تھا۔

23 سال کی عمر میں شادی ہوئی۔

زندگی بہت بہترین گزرنے لگی۔

ایک دن محلہ میں کسی کا انتقال ہوگیا۔

خبر سنتے ہی اچانک بے چینی شروع ہوئی ۔ دل تیز دھڑکنے لگا۔ یوں لگا بس مرنے والا ہوں اُس موقع پر فیملی ڈاکٹر اور حکیم کو دکھایا انہوں نے یہی کہا آپ کو معدے کا مسئلہ ہے اور کچھ نہیں۔ دوائی سے افاقہ ہوگیا۔ مگر یہ کیفیت برقرار رہی (کسی کی موت خصوصاً اچانک کی موت کی خبر سن کر بے چینی ہونا، جیسے اب مر جاؤں گا دل کا دورہ پڑے گا) کبھی کم کبھی زیادہ مگر برداشت کرتا رہا

پھر کئی سال تک طبیعیت بالکل نارمل ہوگئی سارے خوف ختم ہوگئے۔

جوائنٹ فیملی میں رہتا ہوں۔ بھائیوں میں بڑا ہوں گھر میں کسی قسم کا پریشر نہیں ہے جوائنٹ فیملی میں کچھ نہ کچھ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے مگر وہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے برداشت کرتا رہتا ہوں۔

کھانے میں ہر چیز پسند ہے سبزیاں، ہر قسم کے گوشت، پھل فروٹ ۔ میٹھا زیادہ پسند نہیں، مرچ مسالہ مرغن غذائیں زیادہ پسند نہیں (یہ خوف بیٹھا ہوا ہے مرغن غذائیں کھانے سے بیماریاں ہوتی ہیں) دال چاول خوب پسند ہے۔

ٹھنڈی غذاؤں سے پرہیز کرتا ہوں کہ نزلہ زکام فوراً ہوجاتا ہے۔

موسم میں سردی اور بارش زیادہ پسند ہے۔

باغات، جھرنے، آبشار زیادہ پسند ہیں کہ اس سے طبیعت میں خوشگواری آتی ہے۔

صفائی ستھرائی نظم و نسق میں بہت اہتمام رہتا ہے اس میں اگر کوئی تبدیلی کرے تو غصہ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

طبیعیت میں چڑچڑاپن غصہ بہت ہے غصے پر کنٹرول بھی کرتا ہوں مگر پھر بھی غصہ آجاتا ہے۔

ابھی تقریباً چار سال سے پھر یہ کیفیت جاری ہے موت کا ڈر بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا اچانک ہارٹ اٹیک کا بے حد ڈر۔ کہیں کوئی خبر ہارٹ اٹیک سے مرنے کی سنی پڑھی تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ دل کے دورے کا لفظ کہنے، سننے، پڑھنے اور بولنے سے جسم، دل، اور دماغ کی عجیب کیفیت ہوجاتی ہے۔ جتنا اس لفظ سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں ہیں اتنا ہی زیادہ ہارٹ اٹیک یا دل کی بیماری کا ذکر سامنے آجاتا ہے۔

طبیعت میں مایوسی غالب رہتی ہے۔ ہر وقت یہ ٹینشن کہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہیں دل کا کوئی مرض تو نہیں؟ دل کی دھڑکن تیز رہتی ہے جب خوف گھبراہٹ ہو، منفی سوچیں بہت زیادہ ہر ممکن کوشش کے باوجود کنٹرول نہیں ہوتا۔

بھوک برابر نہیں تھوڑا سا کھاتے ہی پیٹ بھرجاتا ہے ۔ گیس کی تکلیف بھی رہتی ہے مگر بہت زیادہ نہیں۔

نزلہ زکام بہت زیادہ رہتا ہے۔ گرد و غبار تبدیلی موسم اور سرد غذاؤں کے استعمال سے ناک سے پانی اس قدر بہتا ہے جیسے نل کھول دیا گیا ہو اور ساتھ ساتھ چھینکیں۔ یہ تکلیف کئی سالوں سے ہے اورہر پانچویں دن یہی کیفیت پھر کوئی الرجی کی گولی لی جائے تب آرام۔ تقریباً ایک سال سے ناک سے پانی پہنے والی کیفیت زیادہ نہیں مگر ناک ہمیشہ بالکل بند رہتی ہے ۔سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔بلغم ناک میں جما ہوا رہتا ہے ۔کوشش کے باوجود نہیں نکلتا اور بلغم گلے میں گرتا ہے۔ چکر سا محسوس ہوتا رہتا ہے۔ گلے میں خراش رہتی ہے۔ آواز بھاری ہو جاتی ہے۔ منہ میں چھالے بن جاتے ہیں اور کھانا پینا مشکل ہو جاتا ہے۔

بچپن سے ہی تہجد، قرآن شریف کی تلاوت کا دائمی معمول ہے مگر طبیعیت کی بے کیفی کی وجہ سے کہیں دل نہیں لگتا ۔دعائیں بھی بہت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے اس دلدل سے جلد از جلد عافیت کے ساتھ نکال دے آمین

یہ میں نے اپنی مکمل کیفیت بیان کردی ہے

مزید معلومات درکار ہیں تو مطلع فرمائیں۔ “

علامہ صاحب سے مزید گفتگو کے نتیجے میں کچھ اور حقائق بھی سامنےآئے۔

ڈر،خوف اور فوبیاز:ـ

اچانک ہارٹ اٹیک کا ڈر heart Attack phobia ، بجلی کی گرج چمک کا ڈر،اندھیرے کا خوف fear of darkness ، گھر میں اکیلے نہیں رہ سکتے اور اگر رہنا پڑے تو ساری رات نیند نہیں آتی۔

فیملی ہسٹری:ـ

فیملی ہسڑی میں شوگر، بلڈ پریشر اور سانس کی تکالیف کے شواہد ملے۔

تجزیہ:ـ

علامہ صاحب ایک علمی شخصیت کے مالک ہیں۔ خطابت ، تدریس، ذکر واذکار اور اس شعبے سے متعلق مختلف ذمہ داریاں بہت خوش اسلوبی سے نبھا رہے تھے۔ ذمہ داری کا ا حساس بہت زیادہ تھا۔ ہر بیان اور خطبہ کے لیے بہترین کارکردگی کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے اندر ایک ڈر محسوس کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ذہنی دباؤ رہتا تھا۔ ہر وقت پریشان رہتے تھے کہ کہیں مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ خاص طور پر ہارٹ اٹیک کا خوف بہت زیادہ تھا۔ صحت کے معاملات کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ شدید نزلہ زکام کے لیےاینٹی الرجی ادویات کے مسلسل استعمال نے سارا سسٹم ڈسٹرب کر دیا تھا۔ مایوسانہ خیالات سوتےجاگتے حواس پر طاری رہتے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے دماغ جکڑا ہوا تھا۔ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے جیسے سانس بند ہو گئی ہے اور پھر لمبے لمبے سانس لینے پر لگتا تھا کہ اب سانس آ رہی ہے۔ نزلہ زکام بہت زیادہ رہتا تھا اور اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے مسلسل اینٹی بائیوٹک یا دیسی

ا دویات لیتے رہتے تھے۔ ان کے مقتدیوں میں ڈاکٹر ز اور حکماء بھی شامل تھے اس لیے علاج معالجے کا سلسلہ چلتا ہی رہتا تھا۔ معدے کے مسائل بہت زیادہ تھے۔ بھوک نہیں لگتی تھی اور جلن، تیزابیت گیس جیسے مسائل درپیش رہتے تھے۔ ذہنی سکون نہیں تھا۔ چونکہ ادویات کا استعمال بکثرت تھا اس لیے علاج کا آغاز نکس وامیکا Nux vomicaسے کیا۔ اس سے کچھ بہتری آئی ۔ سکون محسوس ہوا۔ کشمکش بہت زیادہ تھی۔ کھانے پینے میں بھی کنفیوژن رہتی تھی۔ دل کہتا تھا ” کھانا چاہیے” اور دماغ کہتا تھا ” کھاؤ گے تو بیمار ہو جاؤ گے” چھوٹی سے چھوٹی بات اور بڑے سے بڑے مسئلے کے لیےلاشعور میں دو خواہشات کا تصادم چلتا رہتا تھا۔ اس طرح کی الجھن ہر وقت دماغ پر طاری رہتی تھی۔ ہر معاملے میں ڈبل مائنڈڈ رہتے تھے۔ عجیب و غریب قسم کے واہمے ستاتے رہتے تھے۔ ہر وقت طبیعت میں ایک عجلت رہتی تھی۔ جیسے کوئی ٹرین چھوٹ رہی ہے۔ اگر کل کسی پروگرام میں جانا ہے تو آج شام سے ہی بے چینی شروع ہو جاتی تھی۔ مسلسل یہی سوچتے رہتے تھےکہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں۔ اسی پریشانی میں رات کو نیند نہیں آتی تھی۔ اینگزائٹی اتنی بڑھ جاتی تھی کی بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی تھی۔ کبھی کوئی مضمون لکھنا ہوتا تو ذہن اسی میں الجھا رہتا ہے۔ دماغ میں مسلسل ایک مشین سی چلتی رہتی ہے۔ ذہن کسی وقت بھی یکسو نہیں ہوتا تھا lack of concentration ۔ ہر وقت گھبراہٹ ، بے چینی اور اداسی چھائی رہتی تھی۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھانے کی طلب رہتی تھی ۔ منہ میں کوئی ذائقہ ہمہ وقت درکار تھا ورنہ تیزابیت ہونے لگتی تھی۔ کشمکش confusion ، مخمصے، منفی سوچوں کی بھرمار، شدید غصہ Anger ، ہرلمحہ اپنی صحت کے بارے میں پریشان رہنا ، گوگل کرتے رہنا اور موت کا ڈر بہت واضح علامات تھیں جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے اناکارڈیم Anacardium تجویز کی گئی ۔ اس دوا نے بے پناہ فائدہ دیا۔ طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤ پیدا ہونے لگا۔ دل کی بے چینی کی جگہ طمانیت نے لے لی۔ ذہنی یکسوئی میسر آئی۔ حسبِ ضرورت شدید خوف اور ہارٹ اٹیک فوبیا کے لیے ایکونائٹ Aconite دی جاتی رہی۔ اس کے علاوہ سر میں دردرہتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے سر میں کوئی سوئی چبھ رہی ہے۔ منہ کے چھالے بہت تکلیف دیتے تھے۔ کھانا ،پینا اور بولنا بھی دوبھر ہوجاتا تھا۔ اس صورت حال کے لیے مرک سال Mercsolاستعمال کروائی گئی اور اس نے واضح فائدہ دیا۔ اگرچہ علامہ صاحب نے جو تفصیلات دیں ان کے مطابق ان کو میٹھا پسند نہیں تھا حالانکہ وہ شہد اور کھجور استعمال کرتے تھے لیکن زیادہ میٹھا کھانے سے طبیعت خراب ہو جاتی تھی۔ تیزابیت بنتی تھی۔ اچانک ہارٹ اٹیک کا خوف شدید تھا۔ کوئی بھی کام جو اچانک ہوتا انھیں بہت ڈسٹرب کرتا تھا۔ خاص طور پر اچانک کسی کی موت کی اطلاع ملتے ہی شدید اینگزائٹی Anxiety ہونے لگتی تھی۔ اچانک کوئی مہمان آجائے تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی تھی۔ اچانک پینک اٹیک ہوتا اور طبیعت خراب ہونے لگتی۔ باہر جانا ، واک کرنا پسند کرتے تھے۔ارجنٹم نائٹریکم Argentum nitricum وہ دوا تھی جس نے کیس کو نیا موڑ دیا۔ گلے کی تکلیف، آواز کی خرابی، خاص طور پر تراویح کے دوران آواز کا بیٹھ جانا بھی اہم مسئلہ تھا۔ ارجنٹم مٹیلیکم Argentum metallicum اور ارجنٹم نائیٹریکم Argentum nitricumسے بہت افاقہ ہوا۔ نزلہ زکام زندگی کا حصہ بن چکاتھا۔ جب ناک سے پانی بہتا توناک سرخ ہو جاتی تھی۔ ناک میں جلن محسوس ہوتی اور چھینکوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ دواؤں کے استعمال سے بلغم جم جاتی اور ناک بند ہو جاتی۔ یہ صورتِ حال مزید تکلیف دہ ہو جاتی تھی۔ نزلہ زکام کی شدت اور تسلسل کی وجہ سے ہر وقت بخار سا رہتا تھا ۔نزلہ زکام ، الرجی کی کیفیات ،مسلسل بلغم گرتے رہنا اور بخار جیسے مسائل کے لیے حسبِ ضرورت ٹیوبر کولائنم Tuberculinum بھی دی جاتی رہی۔ اچھی نیند اور نارمل خوراک نے ان کی صحت پر واضح مثبت اثرات مرتب کیے۔ یقیناً ان تمام مسائل کے ساتھ علام صاحب کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا بےحد دشوار رہا ہو گا ۔ مگر اللہ کے کرم سے علامہ صاحب نارمل زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں۔

علامہ صاحب کا فیڈ بیک ملاحظہ فرمائیں۔

Share:

More Posts

Send Us A Message